کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 31
حکومت کا خاتم ہوگیا تھا! پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ’’میر جعفر‘‘کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا۔ سلطان ٹیپو شہید جنوبی ہند میں انگریزوں کے لئے بلائے بے درماں بنے ہوئے تھے۔مگر یہود صفت شیعوں نے ان سے غداری کی حیدرآباد کا حکمراں نظام جو کہ خود شیعہ تھا انگریزوں کے شانہ بشانہ ٹیپو کے خلاف لڑ رہا تھا اور سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے جوشیعہ تھا عین لڑائی کے دوران غداری کی اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ آخری اسلامی خلافت یعنی ترکوں کی حکومت کے زوال کے اسباب اگرچہ اور بھی تھے جیسے بعض ترکی سلاطین کی کمزوری وعیش کوشی،سیاسی امور میں حاشیہ نشینوں کی مداخلت،حکومتی شعبوں کا بگاڑ اور رشوت کی گرم بازاری،سیاسی اعتقادی اور فکر زندگی کے بگاڑ کے دوسرے بہت سے محرکات،مگر صلیبی اور صہیونی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور دشمنانِ اسلام یہود کی سازشیں،عثمانی خلافت کے خاتمہ کے لئے سرفہرست اور بنیادی اہمیت رکھتی ہیں! ۱۸۹۷؁ء میں جب سلطان عبدالحمید برسراقتدار تھے،سوئزر لینڈ کے شہر پالؔ میں ہرتزل یہودی کی سربراہی میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی،جو پالؔ کانفرس کے نام سے مشہور ہے۔اسی کانفرنس میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا،صہیونیوں نے عرب قوم پرستوں کے دشمن سلطان عبدالحمید کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے،سلطان نے اس تجویز کو قطعیت کے ساتھ صرف رد ہی نہیں کیا بلکہ فوراً یہ قانون نافذ کردیا کہ یہودی ہجرت سختی سے روک دی جائے اور فلسطین میں یہودی نو آبادی کسی قیمت پر قائم نہ ہونے دی جائیں! فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی مخالفت سلطان عبدالحمید کی طرف سے یہودیوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا،جس کا انہوں نے بھرپور بدلہ لیا،سلطان کو اس کا تصور بھی نہ تھا۔یہودیوں نے ایک طرف حکومت دشمن تحریکوں کو ابھارا اور اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہونے کے بجائے نسل وقوم کے نظریوں کو فروغ دینے کی کوشش کی،دوسری طرف ان یہودیوں نے عثمانی حکومت پر اندر سے حملے شروع کردئیے،نسل،تہذیب،آزادی،بھائی چارہ اور مساوات کا