کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 28
حقیقت میں یہود ہی کا پروردہ اور ان کا دوسرا روپ تھا،مجوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہودیوں کی طرح شیعیت کی نقاب اوڑ ھ کر اسلام کے قلعے میں شامل ہوجائیں تاکہ اپنے تخریبی اعمال کی پاداش میں اسلامی حکومتوں کے عتاب اور قتال عام سے محفوظ رہ سکیں۔انہوں نے روافض کے عقیدے اختیار کرنے کے بعد ان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان میں اہم دینی مناصب حاصل کرلیے۔اس طرح انہوں نے سانحہ کربلا کو بنیاد بنا کر غم وگریہ اور ماتم حسین کو شیعیت کا معیار بنا دیا۔حالانکہ اس سے قبل یہ مذہب صرف حضرت علی رضی اﷲعنہ اور ان کے استحقاق خلافت کے گرد ہی گھومتا تھا۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اﷲاپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ایران کے مجوسیوں نے یہود کے مشورہ پر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے اور اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ تدبیر نکالی کہ ظاہر میں روافض یعنی شیعوں کے عقیدے میں شامل ہوں اور اس فرقے سے دوستی وچاپلوسی ظاہرکرکے ان کا اعتماد حاصل کریں اور پھر غم وگریہ اور ماتم ان واقعات مصیبت پر ظاہر کریں جو آل محمد پر ظالموں کے ہاتھوں پیش آئے،اس حیلہ سے ہمیں اسلام کے مشاہیر اور مقتدر ہستیوں،خصوصاً صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خلفاء راشدین،تابعین اور بزرگان سلف کو لعن طعن کرنے کا پورا موقع ہاتھ آئے گا جن سے شریعت نقل ہوکر بعد کے مسلمانوں تک پہنچتی ہے۔اس طرح جب ان روافض کے دلوں میں جماعت صحابہ رضی اﷲ عنہم،تابعین اور عام مسلمانوں کی طرف سے نفرت وعداوت بیٹھ جائے گی،تو جو کچھ امر شریعت و قرآن ان بزرگوں سے منقول ہے اس کی قدروقیمت بھی اس احمق فرقے کے دل سے ختم ہوجائے گی۔تب بہت آسانی سے یہ موقوقع ملے گا کہ انہیں اسلام کے دائرے سے نکال باہر کیا جائے،اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کی اتباع پر مصر ہو تو اس پر یہ جال ڈال کر بہکایا جائے کہ ان کے ظواہر کے کچھ اسرار ورموز اور ’’باطنی ‘‘امور بھی ہیں۔اس لئے فقط ظاہر پر فریفتہ ہونا حماقت ہے،اور دانائی یہ ہے کہ حکمت وفلسفہ کے مطابق ان کے اسرار پر اعتقاد ہو،جب یہ لوگ ظاہر وباطن کے فلسفے کو مان لیں گے تو رفتہ رفتہ اپنے مخصوص عقائد ان میں داخل کردیں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ باطن سے مراد یہی اسرار ہیں اور اس طریقے سے باقی قرآن سے منحرف کردینا انہیں آسان ہوگا،اس طرح سے فرقہ ’’باطنیہ اسماعیلیہ ‘‘کا وجود ہوا جو مجوسیوں کے مسلمانوں کے جذبۂ انتقام سے عبارت تھا۔
اس باطنیہ اسماعیلیہ فرقے نے کچھ عرصے کے بعد ملت اسلامیہ کی سیاسی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھاکر حسن بن صباح کی سربراہی میں قلعہ الموت میں اپنی الگ حکومت قائم کرلی تھی اور پھر اپنے ’’فدائین ‘‘کے ذریعہ مسلم ممالک کے