کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 20
کرنے اور ان میں نفاق وتفرقہ ڈالنے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہ تھی۔اس طرح یہ لوگ عامۃ المسلمین میں گھل مل گئے اور اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف،ان کے عقائد میں فساد اور انہیں دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ظاہر ہے کہ یہودیت براہ راست اور کھل کر تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اثر انداز ہو نہ سکتی تھی۔اس نے شیعیت کے روپ میں جن لوگوں کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیا تھا وہ بھی بہرحال ایک محدود طبقہ تھا جس کے بل بوتے پر یہودیت کے خطرناک عزائم کی تکمیل ممکن نہ تھی،اس لئے عام مسلمانوں میں اثر ونفوذ کے لئے ’’کتمان‘‘اور ’’تقیہ‘‘سے بہتر کوئی اور تدبیر ممکن نہ تھی۔ اس غیر محسوس طریقہ پر یہ لوگ مسلمانوں میں گھل مل گئے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد فلسفہ اور علم کلام کی مدد سے انہوں نے مسلمانوں کے مختلف عقائد اور دین کے مسلمات میں شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردئیے۔رفتہ رفتہ مسلمان ان شاطر اور گھاک یہودیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے،کچھ عرصے بعد چشم فلک نے یہ عبرت منظر بھی دیکھ لیا کہ ہمارے یہ عیار دشمن ’’یہودی ‘‘دنیا کے مختلف مقامات پر خاص طور سے برصغیر ہندوپاک میں اسی تقیہ اور کتمان کے پرفریب ہتھکنڈوں کے سہارے صوفیوں کے بھیس میں مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور مقتدی بن بیٹھے ہیں اور کھلے عام اپنے معتقدین پر ’’شیعیت ‘‘یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت ‘‘کی تعلیم وتبلیغ کرنے میں مصروف ہیں،حالانکہ ان کی شیعیت وضلالت ان کے خیالات وافکار کتابوں سے عیاں اور صاف ظاہر تھی،مگر بھولے بھالے مسلمان عقیدت کے نشہ میں چُور انہیں اپنا ’’روحانی پیشوا‘‘ہی نہیں بلکہ مطاع اور ’’حاجت روا ‘‘تک سمجھے بیٹھے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھنے کا سوال ہے تو قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ’’یہودی‘‘مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور ان کی دشمنی ودلی عداوت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اس کی تمنا اور تگ ودو کرتے رہیں کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے،اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعیت کے روپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت اور تبّرا کا محاذ کھول دیا،اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم وخیرالقرون کے مسلمانوں سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کے عروج وترقی کا سنہرا دور خلفاء ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمرفاروق،اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہم کی خلافت کا عہد زریں تھا،جس میں مسلمانوں نے مختصر عرصے کے اندر قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو روند ڈالا اور اسلام کا پیغام سرزمین عرب سے نکل کر مصر وشام،ایران وعراق،ماوراء النہر،