کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 16
السلام وآلہ وراثۃ)
’’اگر میں موسیٰ اور خضر کے درمیان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زیادہ علم رکھتا ہوں،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم میں نہیں تھا۔کیونکہ موسیٰ وخضر علیہما السلام کو صر ف ’’ماکان‘‘کا علم حاصل ہوا تھا اور ’’ما یکون ‘‘اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہیں دیا گیا تھا۔اور ہم کو وہ علم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل سے وراثت میں حاصل ہوا ہے ‘‘(اصول کافی:ص:۱۶۰)
اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی،اصول کافی میں ابوحمزہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ یہ زمین بغیر امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر زمین پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہیں رہے سکے گی۔(اصول کافی،ص:۱۰۴)
اسی طرح اما م باقر سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر امام کو ایک گھڑی کے لئے بھی زمین سے اٹھالیا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ایسے ڈولے گی جیسے سمندرمیں موجیں آتی ہیں۔
اہل کتاب(یہود ونصاریٰ)کا دعویٰ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت میں داخل نہیں ہوپائے گا۔اہل تشیع کے یہاں بھی یہ دعویٰ اسی کروفر کے ساتھ پایا جاتا ہے ان کے نزدیک ائمہ معصومین کو ماننے والے(یعنی شیعہ حضرات)اگر ظالم اور فاسق بھی ہیں تب بھی جنت ہی میں جائیں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہیز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ میں ڈالیں جائیں گے۔اصول کافی میں امام باقر سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا:
(ان اللّٰه لا یستحي ان یعذب امۃ وانت بامام لیس من اللّٰه،وان کانت في اعمالھا برۃ تقیۃ وانّ اللّٰه لیستحی ان یعذب امۃ وانت بامام من اللّٰه وان کانت فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ)(اصول کافی:ص،۲۳۸)
اﷲتعالیٰ ایسی امت کو عذاب دینے سے نہیں شرمائے گا جو ایسے امام کو مانتی ہو جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد نہیں کیا گیا ہے،اگرچہ یہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نیکو کار اور متقی وپرہیز گار ہو،اور ایسے لوگوں کو عذاب دینے اﷲتعالیٰ احتراز فرمائے گا جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں۔اگرچہ یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں ظالم و بدکردار ہوں‘‘