کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 15
وبرتر ہے۔شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب ’’الجامع الکافی ‘‘جو ابوجعفر یعقوب کلینی راوزی(المتوفیٰ ۳۲۸ھ)کی تصنیف ہے،صحت واستناد کے لحاظ سے اہل تشیع کے نزدیک اس کا وہی درجہ ہے جو امت مسلمہ کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے،بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ’’الجامع الکافی‘‘بارہویں غائب امام کی تصدیق شدہ شیعہ مذہب کا سارا دارومدار اسی کتاب پر ہے ’’اصول کافی ‘‘میں کتاب الحجہ باب(ان الارض کلھا للامام)کے تحت ابوبصیر سے روایت ہے کہ ان کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفرصادق نے فرمایا:
(اما علمت انّ الد ینا والاخرۃ للامام یضعھا حیث یشاء ویدفعھا الی من یشاء)
’’کیا تم کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا اور آخرت سب امام کی ملکیت ہے۔وہ جس کو چاہیں دے دیں اور جو چاہیں کریں ‘‘(اصول کافی:ص ۲۵۹)
شیعوں کے کثیر التصانیف بزرگ اورمجتہد مُلّا باقر مجلسی اپنی تصنیف ’’حیاۃ القلوب‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امامت بالاتر از رتبہ پیغمبری ‘‘امامت کا درجہ نبوت و پیغمبری سے بالا تر ہے ‘‘۔
(حیات القلوب:ملا باقر مجلسی ج۳ ص۱۰(
اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم(ما کان وما یکون کا علم)اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور اس کا علم ساری کائنات کو محیط ہے:وانّ اللّٰه قد احاط بکل شي ء علما(الطلاق:۱۲)یہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ’’غلو عقیدت ‘‘کے نظریہ کو فروغ دینے کے لیے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے(ماکان وما یکون)کے علم کا پروپیگنڈا کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شیعہ حضرات کے خود ساختہ ’’ائمہ معصومین ‘‘اس علم کے وارث اور امین ٹہرائے گئے،شدہ شدہ یہمشرکانہ نظریہ عقیدت رسول کے بھیس میں عامۃ المسلمین کے ایک خاص طبقہ یعنی ’’اہل بدعت ‘‘کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
ملاحظہ کیجئے شیعی روایت:امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ایک محفل میں ارشاد فرمایا:
(لو کنت بین موسی والخضر لأخبرتھما انی اعلم منھما ولانباتھما ما لیس فی اید یھما لأن موسیٰ والخضر علیھما السلام اعطیا علم ما کان ولم یعطیا علم ما یکون وما ھو کائن حتی تقوم الساعۃ وقد ورثناہ من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ