کتاب: یہودیت و شیعیت کے مشترکہ عقائد - صفحہ 10
اس طرح شیعیت کے نام پر مسلمانوں کے اندر مختلف گروہ پیدا ہوگئے جن کی الگ الگ اپنی اپنی ڈفلی تھی اوراپنا اپنا راگ!کچھ لوگ حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے،کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد امام،امیر اور وصی رسول مانتے تھے،اور اس بناء پر خلفاٗ ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲعنہم،اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا،یہ بدباطن لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے۔ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے۔ان سب میں نقطۂ اشتراک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا،ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا،تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں۔البتہ چند فرقے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں،ان شیعوں کے ’’اثنا عشریہ‘‘فرقے کو امتیاز واہمیت حاصل ہے۔
ہم اس بات کے ثبوت میں کہ عبداﷲبن سبا یہودی ہی اسلام میں شیعیت کا موجد وبانی ہے۔نیز شیعیت دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے،ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی اور آج بھی یہ شیعیت یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت ‘‘اپنے اصلی روپ میں نیز مسلمانوں میں موجود مختلف بدعتی فرقوں اور تصوف کے پس پردہ اپنا مشن پورا کرنے میں مصروف ہے۔ابن سبا کے بارے میں شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال الکشی‘‘سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں۔
حالانکہ ابن جریر طبری ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘شہرستانی کی ’’الملل واالنحل ‘‘ابن حزم اندلسی کی ’’الفصل فی الملل والنحل ‘‘اور ابن کثیر دمشقی کی ’’البدایہ والنہایہ‘‘میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ شیعیت کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے۔مگر چونکہ بہت سے شیعہ علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں،یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض شیعہ مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں،اس لئے شیعوں کی اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال کشی ‘‘کاحوالہ ہی مناسب ہے تاکہ جانب داری اور الزام کیجُرم سے ہمارا دامن ہمارا دامن داغدار نہ ہو۔