کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 97
ہے، جس میں فوت شدہ کو مخاطب کر کے اور پکارکر اس سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جاتا ہے،مثلاً یہ کہا جاتا ہے:اے فلاں ولی!میری تکلیف کو دُور فرمائیے، مجھے شفا دیجیے، میری لغزش معاف کیجیے ، میری حاجت پوری فرمائیے وغیرہ۔یا اپنی حاجت روائی کے لیے اس سے اللہ کے ہاں سفارش کی درخواست کی جاتی ہے، مثلاً اے فلاں ولی!اللہ کے دربار میں سفارش کیجیے کہ وہ میری ضرورت کو پورا کرے اور میری تکلیف کو دُور فرمائے وغیرہ۔ یہ ساری باتیں اور اس طرح کے دیگر افعال لغوی اعتبار سے فوت شدگان سے توسل کے زمرے میں نہیں آتے۔یہ ساری صورتیں تو میت سے مدد طلب کرنے اور ا ن سے مانگنے کی ہیں جو کہ صریح طور پر شرک ہیں ،بلکہ یہ افعال شرک کی دیگر بہت سی اقسام ،مثلاً علم غیب میں شرک، تصرف میں شرک، سمع میں شرک وغیرہ میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بھی ہیں اور علمائے حنفیہ کی زبانی اس کی تحقیق ہم بیان کرچکے ہیں ۔ قبوریوں کے ہاں پایا جانے والا دوسری قسم کا توسل وہ ہے جس میں فوت شدگان کو مخاطب نہیں کیا جاتا، نہ پکارا جاتا ہے،نہ ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، نہ ہی ان سے حاجت روائی کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کرنے کا سوال کیا جاتا ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے،اسی سے مانگا جاتا ہے اور اسی کو پکارا جاتا ہے نہ کہ میت کو ، مثلاً آدمی کہے:یا اللہ!میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تُوفلاں کی عزت، فلاں کی حرمت، فلاں کے وسیلے اور