کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 95
ہے۔ باقی عبادات ،مثلاً غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا،ان کے لیے نذر ونیاز کا اہتمام، ان پر توکل ، ان سے التجا اور خوف و رجاء ، ان کے لیے سجدہ اور طواف وغیرہ ، کا بھی یہی حکم ہے۔ گیارہویں قسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پکارتے ہوئے کہے : آقا! اللہ تعالیٰ سے میرے اس معاملے میں دعا کیجیے اور اس کا عقیدہ یہ ہو کہ جس کو وہ پکار رہا ہے، وہ غیب جانتا ہے اور ہر زمان و مکان میں اس کا کلام سن رہا ہے اور ہر وقت اس کے لیے سفارش کرتا ہے۔یہ صورت بھی شرکِ جلی ہے، کیونکہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ بارہویں قسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ شخص کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پر پکارے اور کہے:آقا!میرے مریض کو شفا دیجیے ، میرا قرض دُور فرمائیے ، مجھے اولاد عطا کیجیے ، مجھے رزق عنایت فرمائیے ، مجھے معاف فرمائیے وغیرہ۔ یہ صورت بھی دو طرح سے شرک ہے۔ اول اس طرح کہ وہ پکارے جانے والے شخص کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اور یہ شرک ہے، ثانی یہ کہ وہ غیراللہ کو ایسی تکلیف دور کرنے یا ایسا نفع حاصل کرنے کے لیے پکارتا ہے، جس پر غیراللہ قدرت نہیں رکھتے۔ یہ پکار عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔ جن علماء نے توسل کو شرک قرار دیا ہے، ان کی مراد یہی آخری تین قسمیں تھیں ۔‘‘ (صِیانۃ الإنسان، ص :213,212) شارحِ ترمذی علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (1353ھ)لکھتے ہیں :