کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 94
کی دُعا کے وسیلے کا ذکر ہے۔ اسی طرح (رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) ابو طالب نے جس وسیلے کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میدانِ استسقا میں ساتھ لانا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کرانا ہے۔‘‘ (صِیانۃ الإنسان، ص 281) توسل کی ممنوع و حرام اور کفر وشرک پر مبنی صورتوں کے متعلق فرماتے ہیں : ’’آٹھویں قسم یہ ہے کہ آدمی نیک لوگوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا و مناجات کرے۔ عقیدہ یہ ہو کہ وہاں دُعا قبول ہوتی ہے۔ نویں صورت یہ ہے کہ وہ کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس جا کر اس طرح کے الفاظ کہے : آقا! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں ، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کسی عالم کو شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں قسمیں ناجائز ہیں اور ان بدعات میں شامل ہیں ، جن کا سلف نے ارتکاب نہیں کیا۔ ہاں ! (شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ) قبرستان میں سلام کہنا جائز ہے۔ دسویں صورت یہ ہے کہ آدمی کسی نبی یا ولی کی قبر پر جا کر کہے : آقا! میرے مریض کو شفا دیجیے، میری مشکلات کو حل فرمائیے وغیرہ۔ یہ واضح شرک ہے، کیونکہ غیر اللہ کو تکلیف دور کرنے کے لیے یا نفع حاصل کرنے کے لیے پکارنا تکلیف ونفع پر وہ قادر نہ ہو، دُعا ہے اور دُعا عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔ انبیا و اولیا کو ذاتی طور پر ان تصرفات کا اہل سمجھا جائے یا ان امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائی سمجھا جائے یا انبیا کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارشی اور وسیلہ خیال کیا جائے، ہرحال میں شرک