کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 93
عَلَیْہِ، وَالَّذِي عَلَیْہِ اجْتِمَاعَ مُعْظَمَ الْـاُمَّۃِ لَا نَقُولُ بِکَوْنِہٖ شِرْکًا أَوْ مُحَرَّمًا أَوْ بِدْعَۃً ۔
’’وسیلے کی کئی اقسام ہیں ، ان میں سے بعض جائز ہیں ، بعض شرک وحرام اور بعض مکروہ اور بدعت ہیں ۔ وسیلے کی جس قسم کو ہم حرام، کفر، شرک یا بدعت قرار دیتے ہیں ، جمہور امت اتفاقی طور پر اس کے قائل و فاعل نہیں ہو سکتے اور جس قسم پر جمہور امت کا اتفاق ہو، ہمارے نزدیک وہ شرک، حرام یا بدعت نہیں ہو سکتی۔‘‘
(صِیانۃ الإنسان، ص 221)
شیخ سہسوانی رحمہ اللہ بعض اشکالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’بیہقی کی روایت سے زندہ لوگوں کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اس کا کوئی بھی انکاری نہیں ۔ جو لوگ روکتے ہیں ، وہ صرف فوت شدگان کے وسیلے سے روکتے ہیں ۔اگر آپ کہیں کہ ’یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْھِہٖ‘ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے ساتھ بارش طلب کی جاتی ہے‘‘ کے لفظ سے نیک لوگوں کی ذات کے وسیلے کا جواز ثابت ہوتا ہے، تو جواب یہ ہے کہ وسیلے کی مکروہ صورت یہ ہے کہ کوئی کہے:میں فلاں کے بحق یا فلاں کے مقام و مرتبہ کے سبب سوال کرتا ہوں ۔ رہی بات نیک لوگوں کو میدانِ استسقاء میں لانا یا ان سے دُعا کا کہنا، تو یہ قطعاً مکروہ نہیں ۔ یہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ بیہقی کی حدیث میں بھی صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم