کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 92
مروی حدیث ثابت ہو جائے۔۔۔ ( درست یہ ہے کہ اس حدیث سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی دُعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے، آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہو تا۔)‘‘ (زیارۃ القبور والاستِنجاد بالمَقبور، ص 112) علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ( 1326) فرماتے ہیں : إِنَّا مَعَاشِرَ الْمُوَحِّدِینَ لَا نَمْنَعُ التَّوَسُّلَ مُطْلَقًا کَمَا تَقَدَّمَ، وَإِنَّمَا نَمْنَعُ مِنْہُ مَا کَانَ مُتَضَمِّنًا لِّعِبَادَۃِ غَیْرِ اللّٰہِ، أَوْ لِمَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ وَرَسُولُہٗ، أَوْ مُحْدَثًا لَّمْ یَدُلَّ عَلَیْہِ دَلِیلٌ مِّنْ کِتَابٍ وَّسُنَّۃٍ ثَابِتَۃٍ ۔ ’’پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ہم توحید پرست وسیلے سے کلی طور پر منع نہیں کرتے۔ ہم تو صرف اس وسیلے سے منع کرتے ہیں ، جس سے غیراللہ کی عبادت لازم آتی ہو یا جس سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہو یا وہ ایسی بدعت پر مبنی ہو، جس کی قرآنِ کریم اور صحیح حدیث میں دلیل نہ ہو۔‘‘ (صِیانۃ الإنسان، ص 221) نیز فرماتے ہیں : إِنَّ التَّوَسُّلَ لَہٗ أَقْسَامٌ : بَعْضُہَا مَشْرُوعٌ، وَبَعْضُہَا شِرْکٌ وَّمُحَرَّمٌ، وَبَعْضُہَا مَکْرُوہٌ وَّبِدْعَۃٌ، فَالَّذِي نَجْعَلُہٗ مُحَرَّمًا أَوْ کُفْرًا وَّشِرْکًا أَوْ بِدْعَۃً لَّا نَسْلَمُ اجْتِمَاعَ مُعْظَمَ الْـاُمَّۃِ