کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 85
’’اگر تین سو سال والی تاریخ وفات درست ہے، تو پھر یہ نبی نہیں ہیں ، بلکہ کوئی نیک آدمی ہیں ، کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث جوکہ اس مسئلہ میں نص ہے،کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیانی وقفہ میں کوئی نبی نہیں ہے اور یہ درمیانی عرصہ چار سو سال ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ درمیانی وقفہ چھ سو سال اور ایک قول کے مطابق چھ سو بیس سال ہے، لیکن اگر یہ تاریخ وفات آٹھ سو سال مان لی جائے، تو پھر یہ سیدنا دانیال علیہ السلام کا قریبی دور بن جاتا ہے۔‘‘(البِدایۃ والنّھایۃ : 2/50) ان دونوں آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام، انبیائے کرام کے جسموں اور ان کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بڑے اہتمام سے دانیال علیہ السلام کے جسم مبارک کو چھپا دیا،تا کہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ ان سے توسل کر سکیں ۔ بعض لوگ خیانت ِعلمی سے کام لیتے ہوئے ان روایات کے آدھے ٹکڑے سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انبیائے کرام کے اجسام اور ان کی قبروں سے توسل صحابہ کرام کے زمانے میں بھی لیا جاتا تھا۔یہ لوگ اگلے ٹکڑے ڈکار جاتے ہیں جن میں وضاحت ہے کہ یہ کام عجمی کفار کا تھا اور صحابہ کرام نے ان کے اس کام کو جائز نہیں سمجھا، نہ انہیں اس کام کی اجازت دی،بلکہ اس کے سد باب کے لیے انتہائی اقدامات کیے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : ہٰذَا مِنْ فِعْلِ أَہْلِ الْکِتَابِ لَا مِنْ فِعْلِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ