کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 82
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے ،ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گم نام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔ دلیل نمبر 4: ابو العالیہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ وَجَدْنَا فِي بَیْتِ مَالِ الْہُرْمُزَانِ سَرِیرًا، عَلَیْہِ رَجُلٌ مَیِّتٌ، عِنْدَ رَاْسِہٖ مُصْحَفٌ لَّہٗ، فَأَخَذْنَا الْمُصْحَفَ، فَحَمَلْنَاہُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَدَعَا لَہٗ کَعْبًا، فَنَسَخَہٗ بِالْعَرَبِیَّۃِ، أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ مِّنَ الْعَرَبِ قَرَأَہٗ، قَرَاْتُہٗ مِثْلَ مَا أَقْرَاُ الْقُرْآنَ ہٰذَا، فَقُلْتُ لِأَبِي الْعَالِیَۃِ : مَا کَانَ فِیہِ؟ فَقَالَ : سِیرَتُکُمْ، وَاُمُورُکُمْ، وَدِینُکُمْ، وَلُحُونُ کَلَامِکُمْ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ بَعْدُ، قُلْتُ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِالرَّجُلِ؟ قَالَ : حَفَرْنَا بِالنَّہَارِ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ قَبْرًا مُتَفَرِّقَۃً، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلِ، دَفَنَّاہُ وَسَوَّیْنَا الْقُبُورَ کُلَّہَا، لِنُعَمِّیَہٗ عَلَی النَّاسِ لَا یَنْبُشُونَہٗ، فَقُلْتُ : وَمَا یَرْجُونَ مِنْہُ؟ قَالَ : کَانَتِ السَّمَائُ إِذَا حُبِسَتْ عَلَیْہِمْ بَرَزُوا بِسَرِیرِہٖ، فَیُمْطَرُونَ، قُلْتُ : مَنْ