کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 81
دلیل نمبر 3:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّہُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : فَوَجَدَ رَجُلًا أَنْفُہ ذِرَاعٌ فِي التَّابُوتِ، کَانُوا یَسْتَظْہِرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِہٖ، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ ہٰذَا نَبِیٌّ مِّنَ الْـأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَاْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَاْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ، یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُہٗ أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔
’’صحابہ کرام نے تُستَر فتح کیا، تووہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ وبارش طلب کیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں ۔ نبی کو نہ آگ کھاتی ہے، نہ زمین۔ پھر فرمایا: آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئی ایسی جگہ دیکھیں ، جس کا تمہارے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دیں ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گئے اور اسے (ایک گم نام جگہ میں ) دفن کر دیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 4/7، الرقم : 33819، وسندہٗ صحیحٌ)