کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 79
بجائے آپ پر درود وسلام پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یا اللہ! پہلے ہم تیرے نبی کو تیرے دربار میں وسیلہ بناتے تھے اور تُو ہمیں بارش عنایت فرماتا تھا، اب ہم تیرے پاس اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں ، لہٰذا ہمیں بارش عطا فرما۔ صحابہ کرام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اختیار کیے جانے والے طریقے کو اختیار کرنا (آپ سے دُعا کرانا) ممکن نہ سمجھا، تو اس کے بدلے میں اس طریقے (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا) کو اختیار کر لیا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر آتے اورآپ کی ذات کا وسیلہ اختیار کرتے یا کھلے میدان میں جا کر اپنی دعا میں آپ کا وسیلہ ان الفاظ میں پیش کرتے، جن سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دینا یا مخلوق کے واسطے سے سوال کرنا لازم آتا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ یا اللہ! ہم تجھ سے تیرے نبی کے مقام ومرتبہ کے طفیل سوال کرتے ہیں یا تجھے تیرے نبی کی قسم دیتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں (لیکن صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا)۔‘‘ (مجموع الفتاوٰی : 1/318) قابل غور پہلو یہ ہے کہ سلف صالحین راہِ اعتدال پر تھے ، سنت کے متبع تھے۔ کسی زندہ یا فوت شدہ شخص کی ذات کے وسیلے کا ان کی زندگیوں میں ثبوت نہیں ملتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)لکھتے ہیں : ثُمَّ سَلَفُ الْـاُمَّۃِ وَأَئِمَّتُھَا وَعُلَمَائُھُمْ إِلٰی ھٰذَا التَّارِیخِ، سَلَکُوا