کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 78
قارئین کرام ! آپ ہی بتائیں ، کیا معاویہ اور ضحاک رضی اللہ عنہما کو وسیلے کے مفہوم کا زیادہ علم تھا یا بعد والوں کو ؟ پھر کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا محدث سے ذات کے وسیلے کا جواز ثابت نہیں ہے ۔ کیا اب بھی کوئی ذی شعور انسان صحیح بخاری (۱۰۱۰)والی حدیث میں مذکور وسیلہ سے ذات کا وسیلہ مراد لے گا؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی،غیرموجودگی یا وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا، اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات یا دیگر انبیائے کرام کی ذات کی قسم دینایا انبیا کو پکار نا اور ان سے حاجت طلبی کرنا،سب کاموں کا حکم ایک ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں یہ طریقہ رائج نہیں تھا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم ، ان کے ساتھ موجود صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے تابعین ، خشک سالی میں مبتلا ہوتے، تو زندہ نیک لوگوں ،مثلاً سیدناعباس رضی اللہ عنہ اوریزید بن اسود رحمہ اللہ سے دعا کراتے اور اس دعا کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے۔ انہوں نے ایسی صورت میں کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کر کے بارش طلب نہیں کی،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس نہ کسی اور کی قبر کے پاس،بلکہ یہ لوگ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ کی طرف چلے گئے۔ وہ دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینے کی