کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 77
یزید بن الاسود جرشی کی سفارش لے کر آئے ہیں ۔(پھر فرمایا) یزید! اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھائیے (اور دُعا فرمائیے)، یزید رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھائے ، لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے ۔ جلد ہی افق کی مغربی جانب ایک ڈھال نما بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا ،ہوا چلی اور بارش شروع ہوگئی ، حتی کہ محسوس ہوا کہ لوگ اپنے گھروں تک بھی نہ پہنچ پائیں گے۔‘‘
(المَعرِفۃ والتّاریخ للفَسوي : 2/219، تاریخ ابن عساکر : 65/112، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(الإصابۃ في تَمییز الصّحابۃ : 6/697)
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام زندہ نیک لوگوں سے دُعا کرا کے اس کا حوالہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے۔ یہی ان کا نیک لوگوں سے توسل کا طریقہ تھا۔
دلیل نمبر 2:
سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی یزید بن اسود رحمہ اللہ سے وسیلہ لیا :
’’ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے ( کھلے میدان میں ) نکلے ، تو یزید بن اسود رحمہ اللہ سے کہا : اے ( اللہ کے سامنے ) بہت زیادہ رونے والے ! کھڑے ہو جائیے ( اور بارش کے لیے دعا کیجیے ) ۔‘‘