کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 73
نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا : یااللہ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے، تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا، اب ہم اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں ۔سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دُعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام ومرتبہ کے وسیلہ سے مانگا جائے۔ اگر یہ جائز ہوتا، تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ومنزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی شان ومنزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔‘‘ (شرح العقیدۃ الطّحاویۃ، ص 237۔238) جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (1352ھ)لکھتے ہیں : قَوْلُہٗ : أَللّٰہُمَّ! إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَیْسَ فِیہِ التَّوَسُّلُ الْمَعْہُودُ الَّذِي یَکُونُ بِالْغَائِبِ حَتّٰی قَدْ لَایَکُونُ بِہٖ شُعُورٌ أَصْلًا، بَلْ فِیہِ تَوَسُّلُ السَّلَفِ، وَہُوَ أَنْ یُّقَدِّمَ رَجُلًا ذَا وَجَاہَۃٍ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَیَاْمُرَہٗ أَنْ یَّدْعُوَ لَہُمْ، ثُمَّ یُحِیْلَ عَلَیْہِ فِي دُعَائِہٖ، کَمَا فُعِلَ بِالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ کَانَ فِیہِ تَوَسُّلُ الْمُتَأَخِّرِینَ لَمَا احْتَاجُوا إِلٰی إِذْہَابِ الْعَبَّاسِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ مَعَہُمْ، وَلَکَفٰی لَہُمُ التَّوَسُّلُ بِنَبِیِّہِمْ بَعْدَ وَفَاتِہٖ أَیْضًا، أَوْ بِالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ مَعَ عَدَمِ شُہُودِہٖ