کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 72
وسیلہ پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ کسی اور کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کرتے تھے ، تو ثابت ہوا کہ صحابہ کے نزدیک نیک شخص کی دعا کا وسیلہ جائز تھا ،اس کی ذات کانہیں ۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 1/285-284)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ) 792ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّمَا کَانُوا یَتَوَسَّلُونَ فِي حَیَاتِہٖ بِدُعَائِہٖ، یَطْلُبُونَ مِنْہُ أَنْ یَّدْعُوَ لَہُمْ، وَہُمْ یُوَمِّنُونَ عَلٰی دُعَائِہٖ، کَمَا فِي الِاسْتِسْقَائِ وَغَیْرِہٖ، فَلَمَّا مَاتَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا خَرَجُوا یَسْتَسْقُونَ : اللّٰہُمَّ! إِنَّا کُنَّا إِذَا أَجْدَبْنَا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا. مَعْنَاہُ بِدُعَائِہٖ ہُوَ رَبَّہ، وَشَفَاعَتِہٖ وَسُوَالِہٖ، لَیْسَ الْمُرَادُ أَنَّا نُقْسِمُ عَلَیْکَ بِہٖ، أَوْ نَسْأَلُکَ بِجَاہِہٖ عِنْدَکَ، إِذْ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ مُرَادًا لَّکَانَ جَاہُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْظَمَ وَأَعْظَمَ مِنْ جَاہِ الْعَبَّاسِ ۔
’’صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دُعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، آپ سے دُعا کی درخواست کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقا(بارش طلبی کی دعا)وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر