کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 71
بَعْدَ مَمَاتِہٖ کَتَوَسُّلِہِمْ بِہٖ فِي حَیَاتِہٖ، لَقَالُوا :کَیْفَ نَتَوَسَّلُ بِمِثْلِ الْعَبَّاسِ وَیَزِیدَ بْنِ الْـأَسْوَدِ وَنَحْوِہِمَا؟ وَنَعْدِلُ عَنِ التَّوَسُّلِ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِي ہُوَ أَفْضَلُ الْخَلَائِقِ، وَہُوَ أَفْضَلُ الْوَسَائِلِ وَأَعْظَمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ؟ فَلَمَّا لَمْ یَقُلْ ذٰلِکَ أَحَدٌ مِّنْہُمْ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّہُمْ فِي حَیَاتِہٖ إنَّمَا تَوَسَّلُوا بِدُعَائِہٖ وَشَفَاعَتِہٖ، وَبَعْدَ مَمَاتِہٖ تَوَسَّلُوا بِدُعَائِ غَیْرِہٖ وَشَفَاعَۃِ غَیْرِہٖ، عُلِمَ أَنَّ الْمَشْرُوعَ عِنْدَہُمُ التَّوَسُّلُ بِدُعَاء ِ الْمُتَوَسَّلِ بِہٖ، لَا بِذَاتِہٖ ۔
’’اس دعاپر تمام صحابہ نے خاموشی اختیار کی، کسی نے اعتراض نہیں کیا، حالاں کہ یہ مشہور و معروف واقعہ تھا،اس سے واضح ہوا کہ یہ اجماع سکوتی ہے۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جب اپنے دور خلافت میں دعائے استسقا کی، تو اسی طرح دعا فرمائی۔ اگر صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح آپ کا وسیلہ لیتے، جس طرح کہ زند گی میں لیتے تھے، تو ضرور کہتے کہ ہم اللہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی چھوڑ کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ جیسے لوگوں کاوسیلہ کیوں دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوقات سے افضل اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا وسیلہ ہیں ۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ آپ کی دعا اور سفارش کا