کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 70
فِي حَدِیثِہٖ بَعْضُ النُّکْرَۃِ ۔ ’’اس کی حدیث میں کچھ نکارت ہے۔‘‘(الکامل في ضُعَفاء الرّجال : 3/87) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’متروک‘‘ کہاہے۔ (تلخیص المُستدرک : 3/334) 2.زید بن اسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں ، یہ ان میں سے نہیں ہے، لہٰذا روایت مرسل ومنقطع ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس میں دعا کے وسیلہ کا ذکر ہے اور دعا ہمارے نزدیک مشروع اور جائز وسیلہ ہے۔ الغرض سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث میں جس وسیلہ کا ذکر ہے ، وہ صرف اور صرف دعا کا وسیلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے ان سے یہ استدعا کی تھی کہ آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ان کی اس دعا کا حوالہ دیا کہ تیرے نبی کے چچا بھی ہمارے لیے دعا گو ہیں ، لہٰذا ہماری فریاد رسی فرما، یہی مشروع وجائز وسیلہ ہے، اس سے فوت شدگان کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : ہٰذَا دُعَائٌ أَقَرَّہٗ عَلَیْہِ جَمِیعُ الصَّحَابَۃِ، وَلَمْ یُنْکِرْہُ أَحَدٌ مَّعَ شُہْرَتِہٖ، وَہُوَ مِنْ أَظْہَرِ الْإِجْمَاعَاتِ الْإِقْرَارِیَّۃِ، وَدَعَا بِمِثْلِہٖ مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِي سُفْیَانَ فِي خِلَافَتِہٖ لَمَّا اسْتَسْقٰی بِالنَّاسِ، فَلَوْ کَانَ تَوَسُّلُہُمْ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ