کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 64
وسیلہ، صحیح احادیث اور فہم سلف کی روشنی میں
گزشتہ صفحات شاہد ہیں کہ قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے تین طرح کا وسیلہ ثابت ہے۔ایک اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا ، دوسرے نیک اعمال کا اور تیسراکسی زندہ انسان کی دُعا کا،لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں ۔باقی جتنی اقسام ہیں ، غیرمشروع اور ناجائز و حرام ہیں ۔صحیح احادیث اور فہم سلف سے بھی جائز وسیلہ کے بارے میں یہی ثابت ہے، نیز وسیلہ کی ممنوع اقسام کے بارے میں صریح ممانعت و نفی بھی موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے!
زندہ نیک شخص کی دُعا کے وسیلے کا جواز :
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ إِذَا قُحِطُوا اسْتَسْقٰی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ : اللّٰہُمَّ! إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ : فَیُسْقَوْنَ ۔
’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا، تو عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا )کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے تھے۔ دعا