کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 63
تَخْلِیطًا عَظِیمًا، کَانَ یَرْوِي أَشْیَائَ لَیْسَتْ لَہٗ سَمَاعٌ وَّلَا إِجَازَۃٌ ۔
’’اس نے بہت سی کتب تصنیف کی تھیں ، لیکن یہ کام اس کے بس کا نہیں تھا، اس کا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا، ایسی روایات بیان کرتا، جن کا نہ اس نے سماع کیا تھا، نہ انہیں بیان کرنے کی اسے اجازت تھی۔‘‘
(تاریخ دِمَشق لابن عساکر : 41/463)
الحاصل:
قارئین کرام!آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ قرآنِ کریم میں جہاں وسیلہ کا ذکر ہے ، اس سے مراد نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ قرآنِ مجید کی صرف دو آیات میں وسیلہ کا لفظ مستعمل ہے۔ ان دونوں آیات کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے مفسرین کے اقوال اور ان کی تفاسیر آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں ۔ تیسری آیت جس میں گناہ گاروں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ سے اپنے لیے دعا کرانے کا ذکر ہے، اس سے بعض لوگوں نے قبر نبوی اور ذات ِنبوی کے وسیلہ کا اثبات کرنا چاہا اور بعض روایات پیش کیں ، جن پر اصولِ محدثین اور فہم سلف کی روشنی میں تفصیلی و تحقیقی بحث سپرد قلم کر دی گئی ہے۔ فیصلہ خود کریں کہ کیا قرآنِ کریم سے فوت شدگان کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے؟