کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 62
ساتھ ملاقات کا دعوی کیا تھا،جس وجہ سے اس پر جھوٹ کا الزام لگا۔‘‘ (میزان الاعتدال : 2/580) علامہ عبدالعزیز کتانی رحمہ اللہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ (لسان المیزان لابن حجر : 3/424) 2.ابو الحسن علی بن خضر سلمی رحمہ اللہ کے متعلق حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سَمِعَ الْکَثِیرَ، وَجَمَعَ مَا لَوْ لَمْ یَجْمَعْہُ، کَانَ خَیْرًا لَّہٗ ۔ ’’اس نے بہت سے لوگوں سے سماع کیا ہے اور ایسی روایات جمع کیں کہ ان کو جمع نہ کرتا، تو بہتر تھا۔‘‘(تاریخ دِمَشق : 41/461) نیز فرماتے ہیں : سَمِعَ مِنْ شَیْخِنَا أَبِي الْحَسَنِ بْنِ قَیْسٍ، وَلَمْ یَقَعْ إِلَیْنَا مِنْ حَدِیثِہٖ عَنْہُ شَیئٌ إِلَّا بَعْدَ مَوْتِ ابْنِ قَیْسٍ، وَکَانَ جَدِّي أَبُو الْمُفَضَّلِ یَذْکُرُ أَنَّہٗ سَمِعَ مِنْہُ، وَلَمْ یُجْرِ سَمَاعَہٗ مِنْہُ ۔ ’’اس نے ہمارے شیخ ابو الحسن بن قیس سے سماع کیا تھا، لیکن وہ روایات اس نے ابوالحسن بن قیس کی موت کے بعد بیان کیں ، میرے دادا ابو المفضل بیان کرتے تھے کہ انہوں نے علی بن خضر سے سماع کیا، لیکن انہوں نے اس سے سنی ہوئی روایات آگے بیان نہیں کیں ۔‘‘ (تاریخ دِمَشق : 41/462) علامہ عبدالعزیز کتانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَنَّفَ کُتُبًا کَثِیرَۃً، لَمْ یَکُنْ ھٰذَا الشَّاْنُ مِنْ صُنْعَتِہٖ، وَخُلِّطَ