کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 60
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ؟ ’’عتبی جیسا امام ایسی بات کودین کیسے قرار دے سکتا ہے، جو سلف صالحین سے منقول نہیں ، کیسے ممکن ہے کہ عتبی انبیائے کرام اور صالحین کی وفات کے بعد ان کی قبروں پر جا کر ان سے دعا، شفاعت اور طلب استغفار کا حکم دیں ، حالانکہ یہ ایسا کام ہے، جسے اسلاف میں سے کسی نے نہیں کیا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ : 1/221) مولانا اشرف علی تھانوی صاحب(1362ھ)لکھتے ہیں : ’’محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوئی، غرض زمانہ خیرالقرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں ،پس حجت ہو گیا۔‘‘ (نشر الطّیب، ص 254) عربی کی مشہور کہاوت ہے : ثَبِّتِ الْعَرْشَ، ثُمَّ انْقُشْ ۔’’پہلے عمارت کھڑی کریں ، پھر نقش ونگار کریں ۔‘‘ تھانوی صاحب نے عمارت بنانے سے پہلے ہی بیل بوٹے کا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے واقعہ کی سند تو ثابت ہو جائے، پھر اس سے استدلال واستنباط کا کام بھی ہو جائے گا۔ جس سند میں نامعلوم و مجہول اور مجروح افراد نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں ،کیا محدثین کرام اور ائمہ دین اسے اپنا دین بنا لیتے تھے؟ جس واقعہ کو سب سے پہلے حافظ ابوالیمن عبد الصمد بن عبد الوہاب بن عساکر (686ھ) نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہو اور وہ بھی سخت ضعیف سند کے ساتھ، اسے خیرالقرون کے سلف کیسے اپنا سکتے تھے؟