کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 56
غفرلک(بحر محیط)یعنی مغفرت کر دی گئی۔‘‘(معارف القرآن : 2/458۔459) صحابہ کرام ، تابعین عظام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی اس بات کاقائل نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے دعائے مغفرت کی درخواست کی جائے، اگر قرآن و حدیث میں اس کی دلیل ہوتی، تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل و فاعل ہوتے، سلف کے خلاف بدعی عقیدہ گھڑ کر اسے جھوٹی روایات کا کمزور اور بیکار سہارا دینے کی کوشش اہل حق کا وطیرہ نہیں ، جن روایات کو جھوٹے اور متروک راویوں نے بیان کر رکھا ہے، محدثین کرام انہیں بے فیض سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں ۔ روایت نمبر 5 محمد بن حرب ہلالی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : دَخَلْتُ الْمَدِینَۃَ، فَأَتَیْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَزُرْتُہٗ وَجَلَسْتُ بِحِذَائِہٖ، فَجَائَ أَعْرَابِيٌّ فَزَارَہٗ، ثُمَّ قَالَ : یَا خَیْرَ الرُّسُلِ! إِنَّ اللّٰہَ أَنْزَلَ عَلَیْکَ کِتَابًا صَادِقًا، قَالَ فِیہِ : ﴿وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ﴾إِلٰی قَوْلِہٖ : ﴿رَحِیمًا﴾، وَإِنِّي جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا رَّبَّکَ مِنْ ذُنُوبِي، مُتَشَفِّعًا بِکَ … ۔ ’’میں مدینہ میں داخل ہوا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر گیا، اس کی زیارت کی اور سامنے بیٹھ گیا،اتنے میں ایک خانہ بدوش آیا اور قبر مبارک کی زیارت کے بعد کہنے لگا:اے خیر الرسل! اللہ تعالیٰ نے آپ پر سچی کتاب