کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 50
کَذَبَ عَلَیْہِمْ وَلَکِنْ بَعْضُ الْجُہَّالِ یَنْقُلُ ہٰذَا عَنْ مَالِکٍ وَیَسْتَنِدُ إلَی حِکَایَۃٍ مَکْذُوبَۃٍ عَنْ مَالِکٍ وَلَوْ کَانَتْ صَحِیحَۃً لَمْ یَکُنْ التَّوَسُّلُ الَّذِي فِیہَا ہُوَ ہٰذَا؛ بَلْ ہُوَ التَّوَسُّلُ بِشَفَاعَتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَکِنْ مِنْ النَّاسِ مَنْ یُحَرِّفُ نَقْلَہَا وَأَصْلُہَا ضَعِیفٌ ۔ ’’ جو امام مالک رحمہ اللہ ،دیگر ائمہ امت، مثلاً امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہما سے بیان کرے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نیک انسان کی موت کے بعد ان سے سوال کرنا جائز قرار دیا، وہ ان ائمہ پر جھوٹ باندھتا ہے، بعض جہلاء امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ایک جھوٹی روایت پر اعتماد کرتے ہیں ، اگر یہ روایت ثابت ہو توبھی اس سے متنازع فیہ وسیلہ مراد نہیں ، بلکہ اس سے قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مراد ہے، بعض لوگ اس میں تحریف معنوی کرتے ہیں ، خیر! اس روایت کی سند ہی ’’ضعیف‘‘ ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ : 225/1؛ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ص 128) علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إِسْنَادُہَا إِسْنَادٌ لَیْسَ بِجَیِّدٍ، بَلْ ہُوَ إِسْنَادٌ مُّظْلِمٌ مُّنْقَطِعٌ ۔ ’’اس کی سند جید نہیں ، بلکہ جہالت سے بھرپور اور منقطع ہے۔‘‘ (الصّارم المُنکي في الرّد علی السُّبکي، ص 260) روایت نمبر 4 رَوٰی أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ