کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 44
حجرہ مبارکہ میں سایہ نہیں ڈھلا ہوتا تھا بلکہ دھوپ ہوتی ، مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ اسی طرح قائم رہا۔۔۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی)تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ یہی وہ حجرہ ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک ہے، اساس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔ لہذاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیاتِ مبارکہ میں کھڑکی کی بات واضح طور پر باطل ہے۔‘‘ (الردّ علی البکري، ص 68، 74) اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو بھی اس سے اہل بدعت والا وسیلہ ثابت نہیں ہوتا، اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وسیلہ نہیں لیتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَوْ صَحَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حُجَّۃً وَّدَلِیلًا عَلٰی أَنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَکُونُوا یُقْسِمُونَ عَلَی اللّٰہِ بِمَخْلُوقٍ، وَّلَا یَتَوَسَّلُونَ فِي دُعَائِہِمْ بِمَیِّتٍ، وَلَا یَسْأَلُونَ اللّٰہَ بِہٖ، وَإِنَّمَا فَتَحُوا عَلَی الْقَبْرِ لِتَنْزِلَ الرَّحْمَۃُ عَلَیْہِ، وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دُعَاء ٌ یُّقْسِمُونَ بِہٖ عَلَیْہِ، فَأَیْنَ ہٰذَا مِنْ ہٰذَا ۔ ’’اگر یہ روایت صحیح ہو، تب بھی اس بات پر دلیل ہوگی کہ صحابہ نہ تو اللہ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے،نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ