کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 42
قَبْلَ اخْتِلَاطِہٖ إِذَا عُلِمَ أَنَّ سَمَاعَہُمْ عَنْہُ کَانَ قَبْلَ تَغَیُّرِہٖ ۔
’’یہ آخری عمر میں سٹھیا گئے تھے، حافظہ اتنا بگڑ گیا تھا کہ انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کیا بیان کر رہے ہیں ، اس لیے ان کی روایات میں بہت سے منکر روایات شامل ہو گئیں ۔ لہٰذا اگر جس کے متعلق معلوم ہو جائے کہ اس نے ان سے قبل از اختلاط سماع کیا ہے، (تواس کا سماع درست ہے)۔ ‘‘
(کتاب المَجروحین : 2/294)
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ابو عبد الرحمن سلمی کی وجہ سے ضعیف ہے۔
2.ابو الجوزاء کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ یَسْمَعْ مِنْ عَائِشَۃَ وَحَدِیثُہٗ عَنْہَا مُرْسَلٌ
’’ابو الجوزاء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں کیا، اس کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت مرسل (منقطع) ہوتی ہے۔‘‘
(التّمھید : 20/206)
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان ہے۔ جیسا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔
(الکامل في ضُعَفاء الرّجال : 3/331)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو الجوزاء عن عائشہ کی ایک روایت کو منقطع کہا ہے۔
(التّلخیص الحَبیر : 1/559)
3.عمرو بن مالک نکری (حسن الحدیث)کی حدیث ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی