کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 40
روایت نمبر2
ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
قُحِطَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَحْطًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقَالَتْ : اُنْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْعَلُوا مِنْہُ کِوًی إِلَی السَّمَائِ، حَتّٰی لَا یَکُونَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ .
’’ ایک دفعہ اہل مدینہ سخت قحط کا شکارہوگئے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کی) شکایت کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : قبر رسول کے پاس جائیں اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولیں ، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان پردہ نہ رہے، اہل مدینہ نے اسی طرح کیا، تو بہت بارش ہوئی، خوب سبزہ اُگا اور اونٹ فربہ ہو گئے یوں لگتا تھا کہ ابھی پھٹ جائیں گے، لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق (پیٹ پھاڑنے والاسال)رکھ دیا گیا۔‘‘
(سنن الدّارمي : 1/58، ح : 93، مِشکاۃ المَصابیح : 5950)
تبصرہ :
سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
1.ابو نعمان محمد بن الفضل عارم آخری عمر میں حافظے کی خرابی کا شکار ہو گئے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ، جنہوں نے ان سے اختلاط سے پہلے