کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 38
و عرف کسی بھی اعتبار سے برزخی زندگی میں آپ کی قبرمبارک کے پاس آنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے مترادف نہیں ۔ برزخی زندگی تو شریعت کے بیان کرنے سے ثابت ہو گئی ،البتہ یہ بات باقی رہ گئی کہ شریعت میں اس برزخی زندگی میں آنا ، دنیوی زندگی میں آنے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟اور اس کا ثبوت مدعی ہی کے ذمہ ہے۔‘‘ (صِیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشّیخ دحلان، ص 28۔31) اس طویل بحث سے ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ سے وہ مفہوم نہیں نکلتا، جو مفہوم نکالنے کی کوشش ہمارے کرم فرما کیا کرتے ہیں ۔قبر رسول پر جا کر معافی کی درخواست کرنا بدعت ہے۔اگریہ دین ہوتا، تو سلف صالحین ضرور اختیار کرتے ،کیونکہ وہ خیروبھلائی کے بڑے حریص تھے۔علماء نے اس آیت کے تحت جو حکایات وروایات ذکر کی ہیں ،وہ کوئی ایسی مستند نہیں کہ جن سے دلیل لی جاسکے۔ قبرنبوی سے توسل والی روایات کا تجزیہ: روایت نمبر1 ابو حرب ہلالی کہتے ہیں کہ ایک خانہ بدوش نے فریضہ حج ادا کیا ، پھر مدینہ آیا،مسجد نبوی کے دروازے پراونٹنی بٹھائی ،اسے باندھا اور مسجد میں داخل ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا اور پائنتی کی جانب کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ پھر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہنے لگا:اللہ کے رسول!میرے ماں باپ قربان ، میں گناہ گار ہوں ،اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بنانے کے لئے حاضر ہوا ہوں ، کیونکہ اللہ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے :