کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 37
قبر پر جانا اور بات ۔ان میں کوئی بھی چیز دوسری چیز کے مترادف نہیں ۔ جب یہ موقف ثابت ہو گیا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ کی قبر پر آنے ،دونوں کو شامل کرنا گویا انسان میں انسان اور گھوڑے ،دونوں کو شامل کرنا ہے۔ اس سے تو کسی چیز کو اپنے اور غیرمیں تقسیم کرنا لازم آتا ہے۔ عقل مندوں کے ہاں ایسا کرنا باطل ہے۔ یہی کام ابنِ دحلان نے کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر استغفار کرنا، آپ کی حیات ِمبارکہ میں آپ کی ذات کے پاس آنے اور آپ کی وفات کے بعد قبرمبارک کے پاس آنے دونوں صورتوں کو شامل کر دیا ہے،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس استغفار کرنا، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر استغفار کرنے کے مترادف نہیں ۔ اگر یہ لوگ کہیں کہ ہم پر یہ اعتراض لازم نہیں آتا ،کیونکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی حیات ِمبارکہ میں آنا اور آپ کی وفات کے بعد آنا ہے، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی دنیوی زندگی میں آنا اور آپ کی برزخی زندگی میں آنا ہے۔ جب برزخی زندگی میں آپ کے پاس آنا اسی صورت ممکن ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر آئیں ،یعنی زیارت ِقبر نبوی کریں ، تو اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آکر استغفار کرنا جائز ہے۔۔۔ تو ہم عرض کریں گے کہ لغت و عرف کے اعتبار سے آیت ِکریمہ یہی بتاتی ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی ہی میں آنا ہے۔ کیونکہ لغت