کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 337
وَأَظُنُّہٗ مَوْضُوعًا ۔ ’’مجہول الحال ہے۔ اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے، جسے امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں ذکر کیا ہے۔ میرے مطابق وہ روایت من گھڑت ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 3/5246، 6330) حافظ سیوطی رحمہ اللہ(911ھ)کہتے ہیں : قَالَ الذَّھَبِيُّ : فِي سَنَدِہٖ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ، لَا یُدْرٰی مَنْ ھُوَ؟ ’’حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عمرو بن اوس معلوم نہیں کون ہے؟‘‘(الخَصائص الکبرٰی : 1/14) 2.سعید بن ابی عروبہ ’’مدلس‘‘ اور ’’مختلط‘‘ ہے۔ 3.قتادہ بن دعامہ ’’مدلس‘‘ ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔ لہٰذا اس قول کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ کا ’’صحیح‘‘ کہنا معتبر نہیں ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کا ردکرتے ہوئے لکھا ہے: أَظُنُّہٗ مَوْضُوعًا عَلٰی سَعِیدٍ ۔ ’’میرے مطابق یہ سعید پر جھوٹ ہے۔‘‘ (تلخیص المستدرک : 2/415) لسان المیزان میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی حکم کو برقرار رکھا ہے۔ غیر ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ قول شرعی نصوص کے بھی خلاف ہے۔