کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 33
ہمارا اس سے سوال ہے کہ اسلاف ِامت اور ائمہ اسلام میں سے کس نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے؟ ہمیں صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ یا اہل حدیث و تفسیر میں سے کسی ایک شخص سے بھی دکھا دو کہ اس نے اس آیت سے وہ عموم سمجھا ہو جو تم نے ذکر کیا ہے یا اس نے اس پر عمل کیا ہو یا اس کی طرف رہنمائی کی ہو۔ تمہارا سارے علمائے کرام کے بارے میں اس آیت سے یہ عموم سمجھنے کا دعویٰ صریح باطل اور جھوٹا دعویٰ ہے۔‘‘
(الصّارم المُنکی فی الردّ علی السُّبکي، ص 317۔321)
اس آیت ِکریمہ کے متعلق ہم علامہ محمدبشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ(1326ھ) کی فیصلہ کن گفتگو پر بات کو ختم کرتے ہیں ۔ ایک شخص (احمد بن زینی دحلان (1304ھ)) نے اسی مسئلہ پر’الدّرر السنیّۃ في الردّ علی الوھابیّۃ‘ نامی ایک رسالہ لکھا تھا، علامہ سہسوانی رحمہ اللہ نے اس کا بھرپور علمی ردّ کیا۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں :
’’سبکی نے قبر نبوی پر جا کر استغفار طلبی کے لیے قرآنِ کریم کی سورہ نساء کی ایک آیت (64)سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال بوجوہ غلط ہے؛
1.سبکی نے کہا ہے کہ اس آیت میں امت کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔نہ جانے لفظ ِامت سے ان کی کیا مراد ہے؟
اگر انہوں نے ساری امت مراد لی ہے، تو یہ ناقابل تسلیم ہے، کیونکہ یہ آیت تو مخصوص لوگوں کے لیے نازل ہوئی تھی اور اس میں ایسا عام لفظ بھی نہیں ، جس کی بنا پرکہا جا سکے کہ اعتبار خاص سبب ِنزول کا نہیں ،بلکہ لفظ