کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 32
نہیں پہچان سکتا۔ جو شخص صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا، وہ یا تو (نعوذ باللہ) ان سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو گا (اور ایسا ممکن ہی نہیں )یا پھر ایک بدعت کا مرتکب ہو گا(اور یقینا ایسا ہی ہوگا)۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو ایک جگہ جمع دیکھا، وہ باہم مل کر ایک ذِکر کر رہے تھے۔ فرمایا : یا تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو یا پھر گمراہی کے مرتکب ہو۔(سنن الدّارمي : 1/68، وسندہٗ حسنٌ) اس سے معلوم ہوا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبر مبارک پر آنے والے کے لیے آپ کا استغفار کرنا ممکن ہوتا یا شریعت میں اس کا جواز ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والے اللہ کی رحمت و رافت اس چیز کی متقاضی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں اپنی امت کو ترغیب دیتے اور خیرالقرون کے لوگ اس میں سبقت کرتے۔ سبکی کہتے ہیں کہ یہ آیت اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں کچھ خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن یہ آیت اپنی علت کے اعتبار سے عام ہے۔۔۔ تو یہ بات درست ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ جو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں گناہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں استغفار کی درخواست لے کر حاضر ہوا، اس کی توبہ قبول کر لی گئی۔ رہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبرپر آنے کی ،تو اس کا بطلان ہماری گزشتہ معروضات سے معلوم ہو چکا ہے۔ سبکی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس آیت ِکریمہ سے علمائے کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ووفات دونوں حالتوں میں آپ سے استغفار کرنے کا عموم سمجھا ہے۔