کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 319
أَنَّہٗ حَدِیثٌ غَیْرُ صَحِیحٍ وَّلَا ثَابِتٍ، بَلْ ھُوَ حَدِیثٌ ضَعِیفُ الْإِسْنَادِ جِدًّا، وَقَدْ حَکَمَ عَلَیْہِ بَعْضُ الْـأَئِمَّۃِ بِالْوَضْعِ ۔ ’’مجھے حیرانی ہے کہ علامہ سبکی نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی بات پر بھروسہ کر لیا ہے۔ یہ حدیث صحیح و ثابت نہیں ، بلکہ سخت ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے۔ بعض ائمہ کرام نے تو اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔‘‘ (الصّارم المُنکِي في الردّ علی السُّبکي، ص 32) حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فِیہِ مَنْ لَّمْ أَعْرِفْھُمْ ۔ ’’اس روایت کے کئی راویوں کو میں نہیں پہچانتا۔‘‘ (مَجمع الزّوائد : 8/353) حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ (مَناہل الصّفا في تخریج أحادیث الشّفا : 96) ابن عراق کنانی رحمہ اللہ(963ھ)نے ’’باطل‘‘ کہا ہے۔ (تَنزیہ الشّریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشّنیعۃ الموضوعۃ : 1/76) ملاعلی قاری حنفی نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ (شرح الشّفا : 2/224) عبدالرحمن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک‘‘ ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :