کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 312
أَکْرَمَ عَلَیْکَ مِنْہُ ۔ ’’جب آدم علیہ السلام سے غلطی سرزد ہوئی، تو غیب سے آواز آئی : میرے پڑوس سے نکل جاؤ۔ آدم علیہ السلام جنت کے درختوں کے درمیان چلتے ہوئے نکل رہے تھے کہ ان کا ستر کھل گیا۔ انہوں نے معافی معافی پکارنا شروع کر دیا۔ اچانک ایک درخت نے ان کا سر پکڑ لیا۔ آدم علیہ السلام سمجھے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے۔ پھر انہوں نے یوں دُعا کی : یااللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے طفیل مجھے معاف فرما دے۔ اس طرح ان کی خلاصی ہو گئی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کو جانتے ہو؟ کہا : جی ہاں ! پوچھا : کیسے؟ کہا: رب! جب تُو نے مجھ میں روح پھونکی، تو میں نے عرش کی طرف اپنا سر اٹھایا اور دیکھا کہ اس پر محمدرسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )لکھا ہوا ہے، تب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ تجھے ساری مخلوق سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔‘‘ (الإشراف لابن أبي الدُّنیا : 24، تاریخ ابن عساکر : 7/386) تبصرہ: جھوٹی روایت ہے۔ 1.محمد بن مغیرہ مازنی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ۔ 2.اس کے باپ کے متعلق بھی آگاہی نہیں ملی۔ 3.رجل من اہل الکوفہ مبہم اور مجہول ہے۔ 4.عبد الرحمن بن عبد ربہ مازنی کی واضح توثیق درکار ہے۔