کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 311
ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإِسْنَادِ ۔’’اس حدیث کی سند صحیح ہے۔‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ اس آیت ِکریمہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ،مشہور تابعی امام اسماعیل بن عبد الرحمن سُدِّی (127ھ)نے بھی کی ہے۔ (التّفسیر من سنن سعید بن مَنصور : 186، وسندہٗ صحیحٌ) صحابی رسول کی اس صحیح وثابت تفسیر کو چھوڑ کر من گھڑت، باطل اور ضعیف روایات سے آیت ِکریمہ کی تفسیر کرنا قرآنِ کریم کی معنوی تحریف کے مترادف ہے۔ دلیل نمبر12 سیدناآدم علیہ السلام کے توسّل کے بارے میں ایک روایت یوں ہے : لَمَّا أَصَابَ آدَمُ الذَّنْبَ نُودِيَ أَنِ اخْرُجْ مِنْ جِوَارِي، فَخَرَجَ یَمْشِي بَیْنَ شَجَرِ الْجَنَّۃِ، فَبَدَتْ عَوْرَتُہٗ، فَجَعَلَ یُنَادِي : الْعَفْوَ الْعَفْوَ، فَإِذَا شَجَرَۃٌ قَدْ أَخَذَتْ بِرَاْسِہٖ، فَظَنَّ أَنَّہَا اُمِرَتْ بِہٖ، فَنَادٰی : بِحَقِّ مُحَمَّدٍ، إِلَّا عَفَوْتَ عَنِّي، فَخُلِّيَ عَنْہُ، ثُمَّ قِیلَ لَہٗ : أَتَعْرِفُ مُحَمَّدًا؟ قَالَ : نَعَمْ، قِیلَ : وَکَیْفَ؟ قَالَ : لَمَّا نُفِخَتْ فِيَّ یَا رَبِّ الرُّوحُ، رَفَعْتُ رَاْسِي إِلَی الْعَرْشِ، فَإِذَا فِیہِ مَکْتُوبٌ : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تَخْلُقْ خَلْقاً