کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 31
تفسیر ردّ کرنے کے لیے کافی ہے،نیز سبکی کا یہ کہنا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر شفقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعد والے اُمتیوں کے لیے بھی استغفار کا سلسلہ جاری ہے، تویہ بات اس تاویل کے باطل ہونے پر واضح ترین دلائل میں سے ہے، وہ اس طرح کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرنا شریعت میں جائز ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو اس کا حکم فرماتے اور انہیں اس کی ترغیب دیتے ، پھرصحابہ کرام اور ان کے سچے متبعین سب سے بڑھ کر اس کی طرف رغبت اور سبقت کرتے۔ صحابہ ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ، ان میں سے کسی ایک سے بھی کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی یہ منقول نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر استغفار کرنے، شکایت کرنے یا کچھ مانگنے آئے ہوں ۔ صحابہ میں سے صرف سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ، جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آنا ثابت ہے اور وہ بھی صرف سفر سے واپسی پر آپ کو اور آپ کے صاحبین (ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما )کو سلام کہنے کے لیے آتے تھے۔(موطأامام مالک : 1/166، وسندہٗ صحیحٌ) اس کے علاوہ وہ قطعاً کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع کے سب سے عظیم شاگرد عبیداللہ بن عمر عمری ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سوائے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ،کسی بھی صحابی کو نہیں جانتے، جو ایسا کرتا ہو۔ یہ بات تو مسلَّم ہے کہ صحابہ کرام کا طریقہ کامل ترین طریقہ ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعظیم انہوں نے کی، اس سے بڑھ کر کوئی کر ہی نہیں سکتا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت کو صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی