کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 304
2.ابوسہل واسطی کی تعیین بھی نہیں ہوئی۔
روایت کا متن دیکھنے سے یہ دونوں جھوٹے اور رافضی معلوم ہوتے ہیں ۔
اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے چھپا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز عطا نہیں کی تھی، نہ ہی خلافت کے حوالے سے ان کے بارے میں وصیت کی تھی۔ یہ رافضیوں کا من گھڑت عقیدہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس خاص علم تھااور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خلافت کی وصیت کی تھی۔
نیز جن کلمات سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، وہ قرآنِ کریم میں مذکور ہیں ۔ ان میں کسی مخلوق کے واسطے یا وسیلے کا کوئی ذکر نہیں ۔
دلیل نمبر 11:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمانِ باری تعالیٰ:
﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ﴾(البقرۃ : 37)’’آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے۔‘‘ کی تفسیر پوچھی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سَأَلَہٗ بِحَقِّ مُحَمّدٍ، وَعَلِيٍّ، وَفَاطِمَۃَ، وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَیْنِ ۔
’’آدم علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،علی ، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے واسطے سے دُعا کی تھی۔‘‘(مَناقِب عليّ لابن المَغازلي : 89)
تبصرہ:
جھوٹی روایت ہے ۔
(ا) عمرو بن ابی المقدام بن ثابت ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہے۔