کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 30
﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُوْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُم﴾ (النساء :65)’’آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں ہو سکتے، جب تک وہ اپنے جھگڑوں کا فیصلہ لے کر آپ کے پاس نہ آ جائیں ۔‘‘ اس آیت میں اللہ نے اس شخص سے ایمان کی نفی کر دی ہے، جو فیصلے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا۔ یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی آپ ہی سے کرایا جائے گا اور آپ کی وفات کے بعد بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کی روشنی میں خود فیصلہ فرماتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین اور خلفا یہ کام کرنے لگے۔ پھر اس کی مزید وضاحت اس فرمانِ نبوی سے ہوتی ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ مت بنانا۔ (مسند الإمام أحمد : 2/367، سنن أبي داوٗد : 2041، وسندہٗ حسنٌ)اگر ہرگناہ گار کے لیے استغفار کی خاطر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر جانا مشروع ہو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرگناہ گاروں کی سب سے بڑی میلہ گاہ بن جائے گی اور یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور تعلیمات کے سراسر خلاف ہو گا۔ سبکی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کا تعلق آپ کی حیات ووفات دونوں سے ہے۔ اس تفسیر کا باطل ہونا تو نہایت واضح ہو چکا ہے۔ سبکی کی تفسیر کا تقاضا یہ ہے اور ان کے ایک دوسرے قول کا مطلب بھی یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں (دنیاوی زندگی کے ساتھ) زندہ ہیں ۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے، تو خود یہی بات اس کی