کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 293
نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم! تمہیں یہ طریقہ کس نے سکھایا؟ عرض کی : میرے رب! جب تو نے مجھ میں روح پھونکی اور میں سننے ،دیکھنے اور سوچنے، سمجھنے والا کامل انسان بن گیا تو میں نے تیرے عرش کے پائے پر یہ لکھا ہوا دیکھا : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ میں نے تیرے نام کے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی و رسول کا نام لکھا ہوا نہیں دیکھا سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ اس سے معلوم ہو ا کہ وہ تیری مخلوق میں سب سے محبوب و معزز ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تو نے سچ کہا، میں نے تیری توبہ قبول کر لی ہے اور تیری غلطی معاف کر دی ہے۔آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، پھر بہت خوشی خوشی واپس پلٹ آئے۔ان کلمات کے ساتھ دُعا کر کے کوئی بندہ اپنے رب سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ آدم علیہ السلام کا لباس نور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ شیطان نے ان کا لباس اتروا دیا، تو اس سے مراد نور کا لباس ہی ہے۔پھر فرشتے گروہ در گروہ آدم علیہ السلام کو مبارک دینے آتے اور کہتے:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ!آپ کو توبہ مبارک ہو۔‘‘ (الدّر المَنثور للسّیوطي : 1/61) تبصرہ: قول بے سند ہونے کی بنا پر باطل ہے۔