کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 29
کے پاس آکر استغفار کی درخواست کرنے کی دعوت دی جائے اور وہ اسے ٹھکرا دے ،تو اس پر یہ حکم نہیں لگے گا۔ جو ان دونوں معاملوں ، دونوں شخصوں اور دونوں دعوتوں کا ایک ہی حکم بیان کرے گا، وہ باطل کا علمبردار ہو گا اور اللہ تعالیٰ، اس کے کلام، اس کے رسول اور اس کے دین کے محافظوں پر جھوٹ باندھنے کا مرتکب ہو گا۔ ۔۔۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ یہ آیت ِکریمہ سبکی کی تفسیر کی مخالفت کیسے کرتی ہے۔ اللہ نے اس آیت کا آغاز یوں فرمایا : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَّلَمُوا أَنفُسَہُمْ جَآؤُوکَ﴾(النساء : 64) ’’ہم نے تمام رسول اس لیے بھیجے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ کے پاس آ جائیں ۔۔۔‘‘، اس سے معلوم ہوا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اطاعت ِنبوی کانام ہے، اسی لیے اس اطاعت کی طرف نہ آنے والے کی مذمت کی گئی۔ جبکہ آج تک کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ گناہ گار پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور اپنے لیے استغفار کی درخواست کرنا فرض ہے۔ اگر یہ اطاعت ِنبوی پرمبنی ہے، تو بہترین زمانوں والے مسلمان (صحابہ و تابعین و تبع تابعین)کیا اس حکم کی نافرمانی کرتے رہے؟ اور کیا اس حکم کی بجاآوری ان غالیوں اور نافرمانوں نے کی؟ یہ بات تو اس فرمانِ باری تعالیٰ کے بھی خلاف ہے :