کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 283
سَأَلَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّعَلِيٍّ وَّفَاطِمَۃَ وَّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، إِلَّا تُبْتَ عَلَيَّ، فَتَابَ عَلَیْہ ۔
’’آدم علیہ السلام نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اور علی، فاطمہ، حسن وحسین رضی اللہ عنہم کے وسیلہ سے دُعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ نے کر لی۔‘‘
(الموضوعات لابن الجوزي : 1/398، الفوائد للشّوکاني، ص 394)
تبصرہ :
من گھڑت ہے جو کہ عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی کی گھڑنت ہے۔ یہ کسی صورت قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔
1.علی بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الْمُبَارَکِ، یَقُولُ عَلٰی رُؤُوسِ النَّاسِ : دَعُوا حَدِیثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، فَإِنَّہٗ کَانَ یَسُبُّ السَّلَفَ ۔
’’میں نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سر عام فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات چھوڑ دیں ، کیونکہ وہ اسلاف ِامت کو گالیاں بکتا تھا۔‘‘(مقدمۃ صحیح مسلم، ص 11)
2.امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ بِثِقَۃٍ وَّلَا مَاْمُونٍ ۔’’قابل اعتبار نہیں ۔‘‘
(الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 6/223، وسندہٗ حسنٌ)
نیز ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔(تاریخ یحیٰی بن مَعین : 1624)