کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 28
حاضر نہ ہو نے والوں کو سخت وعید سنائی گئی، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، تو امت کے ظلم ختم ہو گئے اور اب ان میں سے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی ضرورت نہ رہی؟؟؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سبکی کی طرف سے کی گئی آیت ِکریمہ کی تفسیر یقیناً باطل ہے۔ اگر یہ تفسیر حق ہوتی، تو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین اس کے علم و عمل اور تبلیغ ونصیحت میں ہم سے بہت آگے ہوتے(یعنی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبر نبوی پر حاضر ہو کر اپنے لیے استغفار کی درخواست کرتے،لیکن ان سے ایسا کچھ منقول نہیں )۔ کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تفسیر ایجاد کرنا جائز نہیں ، جو سلف کے دور میں نہیں ہوئی،نہ ان کے علم میں آئی اور نہ انہوں نے امت کے لیے اس تفسیر کو بیان کیا۔ ایسی تفسیر کرنے سے تو یہ لازم آتا ہے کہ اسلاف ِامت حق سے جاہل اور بھٹکے رہے اور اس کا علم بعد والے کو ہو گیا،جب بعد والوں کی تفسیر اسلاف کی تفسیر کے معارض ومخالف ہو اور اس کا بطلان بغیر لمبی چوڑی بحث وتمحیص کے نہایت واضح ہو، تو مذکورہ صورت ہی لازم آتی ہے۔ہم اس پر کچھ مزید تنبیہات کریں گے ۔۔۔ یہ بات بھی سبکی کی تفسیر کو قطعی طور پر باطل قرار دیتی ہے کہ ہر مسلمان کو یقینی طور پر معلوم ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کی دعوت دی گئی، لیکن اس نے باوجود قدرت کے آنے سے اعراض کیا ، وہ انتہائی مذموم ہے اوراسے منافق قرار دیا جائے گا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کسی کو آپ کی قبر