کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 275
أَعْرِفُ قَبْرَ مَعْرُوْفَ الْکَرْخِيِّ مُنْذُ سَبْعِیْنَ سَنَۃٍ مَا قَصَدَہٗ مَہْمُوْمٌ إِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ ہَمَّہٗ ۔ ’’میں ستر سال سے معروف کرخی کی قبر کو جانتا ہوں کہ جو بھی پریشان حال ان کی قبر کا قصد کرے ،اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی دور کر دیتا ہے۔‘‘ (تاریخ بغداد للخطیب : 1/123، وسندہٗ صحیحٌ) تبصرہ: متأخرین کا عمل دین نہیں بن سکتا۔ یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے، رہا حاجت پوری ہو جانا تو یہ اتفاقی امر ہے، آج بھی قبروں کے پجاری کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد ملتی ہے، الغرض وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صاحب قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے، کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مدد مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی، کیا ان کی کوئی دلی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز پر دلیل بن جائے گی؟ قرآن و سنت میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل اور تبرک کا کوئی جواز نہیں ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا، تو صحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور کرتے، خیرالقرون کے بعد دین اسلام میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ انہی کاموں میں سے ہے۔ قارئین ! یہ تھے ان کے دلائل، جو دُعا میں کسی مخلوق کی ذات یافوت شدگان کے وسیلے کو مشروع اور جائز قرار دیتے ہیں ۔آپ نے انہیں بغور ملاحظہ فرمایا۔ ان روایات کی دو قسمیں ہیں ؛