کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 27
سے پیچھے رہنے کو نفاق کی علامت بتایا ہے۔ محدثین، فقہا اور مفسرین ائمہ جو پوری امت کے رہنما تھے اور جن کا تذکرۂ خیر پوری امت کرتی ہے، وہ اس فرض سے کیونکر غافل رہے؟انہوں نے نہ اس کی طرف دعوت دی، نہ لوگوں کو اس کی ترغیب دی، نہ اس کی طرف رہنمائی کی، نہ ان میں سے کبھی کسی نے ایسا کوئی کام کیا۔ کیا اس فرض کی ادائیگی ان لوگوں نے کی ، جن کی کوئی اہمیت نہیں ،نہ وہ اہل علم میں شمار کیے جاتے ہیں ؟ اسلاف ِامت سے تو وہی باتیں منقول ہیں ، جو غالی لوگوں کو بُری لگتی ہیں ، یعنی غلو اور شرک سے ممانعت اور توحید و عبودیت کی دعوت۔ جب یہ مرویات ِسلف غالی لوگوں کے حلق کا کانٹا، ان کی آنکھ کا تنکا اور ان کے دل کا روگ بن جاتی ہیں ، تو وہ انہیں جھٹلانا اور ان کے راویوں میں طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں ، نیز علمِ حدیث میں درک رکھنے والوں سے جب ان کا پالا پڑتا ہے، تو وہ تحریف سے کام لینے لگتے ہیں ۔ لیکن اللہ منارہ حق ہی کو بلند رکھتا ہے تاکہ راہِ حق کے متلاشیوں کوہدایت مل سکے اور دشمنانِ حق پر حجت قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ،حق کی پیروی کرنے پر بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ،حق کو ٹھکرانے ، تکبر کرنے اور اہل حق کو حقیر جاننے کی بنا پر رسوا کردیتا ہے۔ یہ تو بہت تعجب خیز ہے کہ امت اپنی جانوں پر ظلم صرف اسی وقت کرتی تھی جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس موجود تھے اور اسی وقت انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا اور آپ کی خدمت میں