کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 265
آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیَہٗ أَہْلُہٗ، وَلٰکِنِ ابْکُوا عَلَیْہِ إِذَا وَلِیَہٗ غَیْرُ أَہْلِہٖ ۔
’’ایک دن مروان نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے،مروان نے کہا:معلوم ہے کیا کر رہے ہو؟ اس نے مروان کی طرف چہرہ موڑا تو وہ سیّدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔فرمایا:جی ہاں !میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ دین کا والی دین دار شخص بنے تو اس پر مت رونا۔ اس پر تب روناجب اس کے والی نااہل لوگ بن جائیں ۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 5/422، المستدرک للحاکم : 4/515)
تبصرہ:
سند ضعیف ہے، داود بن ابی صالح حجازی کے متعلق حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔’’مجہول ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 9/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَقْبُولٌ ۔’’ مجہول الحال ہے۔‘‘(تقریب التّہذیب : 1792)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا درست نہیں ۔
دین کی باتیں ثقات سے قبول کی جائیں گی نہ کہ مجہولین سے۔