کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 263
دے۔ امام صاحب کی قبر خرتنک میں ہے۔ قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی ، اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔ اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘ (الصّلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندَلُس لابن بَشکوال، ص 603، وسندہٗ صحیحٌ) تبصرہ: پانچویں صدی کے اواخر کے بعض لوگوں کا عمل دین کیسے بن گیا؟ ایک شخص کے کہنے پر بادشاہ اور اس کی رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔ رہا بارش کا ہوجانا، تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔ آج بھی کتنے ہی مشرکین قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے، تو سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِقبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔ کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟ اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟ قرآن و حدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل کا کوئی جواز نہیں ۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا، تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیرالقرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔ اس دور میں کسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔