کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 26
ہے۔‘‘ زیربحث آیت بھی اسی مفہوم کی ہے۔ اس میں منافق کا تذکرہ ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو چھوڑ کر کعب بن اشرف اور دیگر طاغوتوں کے فیصلے پر راضی ہوا۔یوں اُس نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا۔پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے استغفار کردیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں استغفار کرانے کے لیے حاضر ہونا توبہ کی قبولیت اور گناہوں کی معافی کا پروانہ تھا۔ صحابہ کا صنیع یہی تھا۔ ان میں سے کسی سے لغزش صادر ہو جاتی اور توبہ ضروری ہوتی، تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا:اللہ کے رسول! میں فلاں غلطی کا مرتکب ہو گیا ہوں ،لہٰذا میرے لیے استغفار کیجیے۔ یہی بات صحابہ کرام اور منافقین میں فرق کرتی تھی۔ لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور اللہ نے مومنوں کی رفاقت سے نکال کر اپنے دارِ کرامت میں منتقل کر لیا، تو کوئی بھی صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر نہیں آتا تھا اور یہ نہیں کہتا تھا کہ اللہ کے رسول!مجھ سے فلاں گناہ سرزد ہو گیا ہے ،لہٰذا میرے لیے اللہ سے معافی کی درخواست کریں ۔ جو شخص کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نقل کرتاہے ، وہ صریح جھوٹا اور بہتان تراش ہے۔(جب ایسی کوئی روایت موجود نہیں ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ سے استغفار کرنے والے)نے مطلق طور پر خیرالقرون قرار پانے والے تمام صحابہ اور تابعین پر (نفاق کا)جھوٹا الزام لگایا ہے کہ وہ اس فرض کو ترک کیے ہوئے تھے، جس سے پیچھے رہنے والوں کی اللہ نے مذمت کی ہے اور جس